گزشتہ چند برسوں سے کالا کوٹ نے جس طرح غنڈہ گردی، ہنگامہ آرائی ، توڑ پھوڑ اور بدمعاشی کے ذریعے وکالت کے پیشے کو بدنام اور سماج میں اسے بے توقیر کردیا ہے اس کے پیش ِ نظر عوام الناس میں ان مادر زاد آزاد قانون دانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی اور علمی و سماجی حلقوں میں قانون کی تعلیم اور اساتذہ کا کردار بھی ہدف ِ تنقید بننے لگے ۔ان حالات میں ملک کے سنجیدہ فکر حلقے، سینئر قانون دان اور صاحبان ِ فہم وذکاٗ میں قانون کی تعلیم کے ایسے ادارے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ان کے نزدیک اگر قانون کے طلبہ وک قانون کی معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ اس پیشے کی توقیر کا احساس بھی ان طلبہ کے اذہان میں جاگزیں کردیاجائے تو اس سے مستقبل میں بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں اور جس قسم کے افسوس ناک واقعات گزشتہ چند برسوں کے دوران دیکھنے اورسننے میں آئے ان سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔چنانچہ اہل فکر و نظر کی سوچ اور فکر کے اسی پس منظر اور پیش منظر میں 13 مارچ 2021ء کا دن خصوصی اہمیت کا حامل بن گیا۔کہ جب پاکستان کے دل لاہور میں قانون کی بہترین اور معیاری تعلیم کے لیے ” لاہور سکول آف لا ء“ کے نام سے قائم کیے جانے والے ادارے کی افتتاحی تقریب منعقد کی جارہی تھی۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی معروف بستی ماڈل ٹاون کے بی بلاک میں قائم کیے جانے والے اس ادارے کے وسیع لان میں تقریب کا انتظام کیاگیا تھا۔انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ دعوت نامے کے مطابق شام ساڑھے پانچ بجے سے چھ بجے تک کا وقت مہمانوں کی آمد کے لیے مختص تھا۔ مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے کے لیے منتظمین مین گیٹ پر موجود تھے۔ کووڈ 19 کی تیسری تیزی سے پھیلتی وبا ء کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کے طورپر مہمانوں کے لیے ماسک اور سینیٹائزر کی سہولت مہیا کی گئی تھی۔ادارے کے افتتاح کے لیے انتظامیہ نے کسی سرکاری ، درباری شخصیت ، کسی وزیر اعلیٰ، گورنر، وزیر قانون یا اسی نوع کی کسی اہم سرکاری شخصیت کی بجائے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا تھا جس نے تمام عمر قانون کی بالادستی، انصاف کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی جدوجہد میں مثالی کردار ادا کیا تھا۔جن کا نہ صرف قانون کے میدان میں اہم خدمات انجام دینے کی بنا پر احترام کیا جاتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی جن کی عوامی اور سماجی خدمات کا اعتراف کیا جاتاہے۔جن کے شاگردوں کے بھی شاگرد آج عدلیہ سمیت قانو ن کے اہم اداروں میں کلیدی اسامیوں پر تعینات ہیں۔یہ شخصیت ملک کے معروف ماہر قانون عابد حسن منٹو تھے۔جن کو ادارے کے افتتاح اور تقریب کی صدارت کے لیے خصوصی طورپر مدعو کیا گیا تھا۔پروگرام کے مطابق چھ بجے تقریب کے صدر معروف قانون دان، عابد حسن منٹو تشریف لےآئےتو انہوں نے سکول کا افتتاح کیا اور دیگر معزز مہمانوں کے جلو میں پنڈال میں پہنچ گئے۔جہاں انہیں کرسئی صدارتپیش کی گئی۔ان کے دائیں بائیں اسٹیج پر سکول کے پرنسپل، معروف ماہر قانون، سابق وزیر قانون جسٹس ریٹائرڈ سید افضل حیدر، معروف قانون دان اور ترقی پسند دانش ور احسان وائیں، سابق گورنر پنجاب بیرسٹر سردار لطیف خان کھوسہ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر، معروف قانون دان حامد خان، لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر مقصود بٹر ,معروف قانون دان منیر احمد بھٹی اور سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی اور لاہور سکول آف لاء کے ڈائریکٹر اجمل شاہ دین رونق افروز تھے۔تقریب کے باقاعدہ آغاز سے پہلے مہمانان ِ گرامی کو گلدستے پیش کیے گئے۔اللہ کے بابرکت نام اور رسول اللہ ﷺ پر درودو سلام کے نذرانہ کے ساتھ تقریب کا با قاعدہ آغاز ہوا۔سکول آف لاء کے پرنسپل جسٹس ریٹائرڈ سید افضل حیدر نے خطبہ ء استقبالیہ پیش کیا۔ان کے خطبہ ء استقبالیہ میں قانون کی تعلیم کی اہمیت، افادیت، اس کے پس منظر و پیش منظر اور صاحب ِ صدارت عابد حسن منٹو کی خدمات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جبر کے ماحول میں معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن انصاف اور قانون کی بالادستی کے بغیر کسی معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔انہوں نے صاحب ِ صدارت عابد حسن منٹو کی شخصیت اور ان کی عظمت کردار کے حوالے سے متعدد واقعات بیان کیے اور کہاکہ عابد منٹو اول روز سے جس نظریے سے وابستہ رہے اس میں آج تک کمی نہیں آئی، انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ۔سید افضل حیدر کی تقریر کا حسن یہ تھا کہ وہ انگریزی، اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اور پنجابی اشعار سے بھی آراستہ تھی۔ وہ اپنی تقریر میں اردو، فارسی اور پنجابی کے باکمال شعراٗ کے اشعارموقع محل کے مطابق اس خوب صورتی کے ساتھ استعمال کررہے تھے کہ سامعین و حاضرین ان سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو رہے تھے۔ان کی تقریر کی حلاوت تقریب کے اختتام تک محسوس کی جاتی رہی۔لاہور سکول آف لاء کے پرنسپل جسٹس (ر) سید افضل حیدر کے بعد مہمان مقررین کو دعوت ِ خطاب دی گئی۔جنہوں نے اپنے اپنے انداز اور اسلوب میں قانون کی تعلیم کے اس ادارے سے وابستہ دونوں شخصیات سید افضل حیدر اور عابد حسن منٹو کی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیااور اس امید کا اظہار کیا کہ ان عظیم شخصیات کی سرپرستی اور رہنمائی میں لاہور سکول آف لاء پاکستان میں قانون کی تعلیم کا مثالی ادارہ ثابت ہوگا۔
اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے حناجیلانی نے کہاکہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے دونوں شخصٰیات سے کسب ِ فیض کیا ہے۔ان حضرات کی رہنمائی میں لاہور سکول آف لاء میں نہ صرف رول آف لاء کے حوالے سے پڑھایا جائے گا بلکہ اس کو عملی شکل دینے کے بارے میں بھی طلبہ کی تربیت کی جائے گی۔مجیب الرحمان شامی نے کہاکہ قانون کی تعلیم کے ایک اچھے او ر معیاری ادارے کے قیام پر میں جناب اجمل شاہ دین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں َ اس ادارے کے لیے اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ سید افضل حیدر بطور پرنسپل اس سے وابستہ ہیں۔قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے جن کی جدوجہد عشروں تک پھیلی ہوئی ہے۔کوئی گروہ، مسلک یا جماعت یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ ہمارے ہیں بلکہ یہ ہم سب کے ہیں۔ہر شخص انہیں معاشرے میں روشنی کے مینار کے طورپر دیکھتا ہے۔اور ان سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ نہ معلوم کس کی بد دعا لگ گئی کہ ہمار ا سفر دائرے کا سفر بن گیا ہے اور ہم آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ہم بحیثیت قوم ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔یہاں جج تو آزاد ہیں لیکن عدلیہ آزاد نظر نہیں آرہی۔ان کے فیصلوں سے یوں لگتا ہے کہ ہماری عدلیہ کو بھی کچھ مطالعہ کی ضرورت ہے۔میری دعا ہے کہ یہ ادارہ فقہ کا مثالی مرکز بن جائے اور یہاں ریسرچ کاکام بھی ہو اور طلبہ میں جستجو کا شوق پیدا ہو۔ احسان وائیں نے اپنے خطاب میں کہاکہ سید افضل حیدر کا پرنسپل ہونا لاہور سکول آف لاء کے لیے عظمت کا باعث ہے۔
سید افضل حیدر اور عابد حسن منٹو دونوں ایسی شخصیات ہیں کہ جنہوں نے جمہوریت کے لیے جدوجہد بھی کی اور قانون کی تدریس بھی کی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں عابد منٹو کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا اور تمام عمر مزدوروں،کسانوں، وکیلوں اور محنت کشوں کی وکالت کرتے رہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر مقصود بٹر نے کہاکہ ہمارے سینئر ز نے اپنے کردار وعمل اور کمٹمنٹ کے ذریعے عدلیہ کو جس مقام تک پہنچایا ہم اس مقام پر پہنچانے کے لیے کوشش کریں گے اور اپنے بڑوں کے نام کو زندہ رکھیں گے۔سابق گورنر پنجاب بیرسٹر سردار لطیف خاں کھوسہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ قانون کی تعلیم کے حوالے سے یہ ادارہ قابل ِ فخرہے۔کیونکہ اس سے قانون کی اہم شخصیات وابستہ ہیں۔انہوں نے کہا پاکستان کا تخیل ایک بیرسٹر ڈاکٹر محمد اقبال نے پیش کیا۔ اس کی تخلیق ایک بیرسٹر محمد علی جناح کے حصے میں آئی۔ اس کا پہلا متفقہ آئین ایک بیرسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے پیش کیا۔دنیا میں کوئی بھی کامیابی محنت، عزم صمیم اور لگن کے بغیر ممکن نہیں۔آج ہمارے انحطاط کی وجہ یہ ہے
ہمارے اساتذہ نے اپنا کام چھوڑ دیا اور وہ کمرشلائزڈ ہو گئے ،ریگولیٹری باڈیز کی گرفت بھی کمزور پڑگئی، اتحاد، تنظیم اور ایمان کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ہمیں آج لاہور سکول آف لاء جیسے تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے جہاں عابد منٹو اور افضل حیدر جیسے عظیم اساتذہ کی رہنمائی میں قانون کی اعلی اورمعیاری تعلیم کا فروغ ہو اور اس کے ذریعے معاشرے کا متشددانہ رویہ ختم وہ اور دلائل سے ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ پیدا ہو۔معروف قانون دان حامد خان نے کہاکہ یہ ادارہ خوش قسمت ہے کہ اسے سید افضل حیدر ایسے سربراہ میسر آئے۔ سید افضل حیدر اور عابد منٹو دونوں شخصیات بطور قانون دان اور بطور استاد قابل تعریف اور لائق ستائش ہیں۔اس وقت قانون کی تعلیم کا حال اچھا نہیں ہے۔ غیر معیاری
تعلیمی اداروں کی وجہ سے ایسے لوگ اس پیشے میں آگئے ہیں کہ جن کا رویہ اور کردار ہمارے لیے شرم کا باعث ہے۔ایسے غیر معیاری تعلیمی اداروں کی بندش وقت کی ضرورت ہے۔پیسے کمانے کے رجحان نے بہت سی خرابیاں پیدا کردی ہیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ ملک میں قائم قانون کی تعلیم کے دوسرے اداروں کے مقابلے میں لاہور سکول آف لاء ایک مثالی ادارہ ثابت ہوگا۔منیر احمد بھٹی نے اپنے خطاب میں کہاکہ آج ہمیں پروفیشنلزم کی ضرورت ہے۔ افضل حیدر اور عابد منٹو کی خدمات، تجربات اور علم سے استادہ کے لیے کنسورشیم قائم کیا جانا چاہیے۔ توقع ہے کہ یہ ادارہ آنے والے دور میں قانون کی تعلیم کا یادگار ادارہ ثابت ہوگا اور مستقبل میں لوگ اس کی مثال دیا کریں گے۔
صاحب صدارت عابد حسن منٹو نے اپنے صدارتی خطاب میں ان نوجوان وکلاء اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کے کردار پر دکھ اور افسوس کا اظہا کیا جن کی وجہ سے سماج میں قانون کے پیشے کی بے توقیری ہوئی اور عوام میں اس کا اعتماد مجروح ہوا اور عوامی سطح پر کالا کوٹ قابل ِ نفرین بن گیا اور طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ یقین ظاہر کیا کہ ایک طالب علم، ایک قانون دان، ایک ذمہ داری شہری اور ایک انسان کے طورپر اب آپ ایسا نہیں کریں گے جو اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا گیا اور نہ ہی کسی چلتی عدالت کو تالہ لگائیں گے ۔ بلکہ حالات اب بہتری کی طرف جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ میں گزشتہ کئی عشروں سے بطور قانون دان پریکٹس کررہا ہوں لیکن آج میں اپنے ارد گرد جو صورت حال دیکھ رہا ہوں وہ کوئی خوش گوار یا دل خوش کن نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ چیزیں بدلتی کیوں نہیں ہیں، بہتری کیوں نہیں آرہی۔صرف وکیل ہی نہیں پورا سماج تنزلی کا شکار ہے۔ قانون کا پیشہ اختیار کرنے والے اور ہماری بار ایسوسی ایشنیں کیا کرر ہی ہیں۔ہمارا کام صرف وکالت کرنا نہیں ہے ہمارا کام سماج کو بدلنا بھی ہے۔اگر سیاست اپنا کام نہیں کرتی تو یہ قانون دانوں کا کام ہے کہ حالات کو سدھارنے کے لیے آگے بڑھیں۔ضروری ہے کہ ہم سماج کو بہتر بنانے کے لیے اپنی جدوجہد کو ازسر نو تیز کریں۔
صاحب ِ صدارت عابد حسن منٹو کے صدارتی خطاب کے بعد اختتامی کلمات کے لیے ڈائریکٹر لاہور سکول آف لاء اجمل شاہ دین کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے ادارے کے قیام کی غرض و غائت بیان کی اور واضح کیا کہ ان کا ادارہ تعلیم کے معیار پر ہرگز کمپرومائز نہیں کرے گا۔ہم علم فروشی کے لیے اس ادارے کو استعمال نہیں کریں گے۔ پیشہ وارانہ معیار ی تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت پر بھی بھرپور توجہ دی جائے گی۔ انہوں نے بتایاکہ سکول میں داخلے کے لیے آنے والے ایسے طلبہ کو داخلہ دینے سے انکار کردیا گیا جو صرف ڈگری حاصل کرنے کے خواہاں تھے لیکن کلاسیں اٹینڈ کرنا نہیں چاہتے تھے۔انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس ادارے کے زیر اہتمام ایک ریسرچ جرنل بھی شائع کیا جارہا ہے جس کے لیے ابتدائی کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔تقریب کے اختتام پر مہمانوں کو شیلڈپیش کی گئیں۔ اس کے بعد پر تکلف عشائیہ دیا گیا اور یوں یہ خوب صورت تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔